Skip to main content

عبادت کا مفہوم

آج نماز روزہ حج ہی کو مکمل عبادت سمجھا جاتا ہے -----جبکہ عبادت انسانی زندگی کا ہر وہ
کام / فعل ہے جو الله کی نعمت یا انعام  اسلام ( باہم سلامتی ) کے جذبے ( تقویٰ ) کی بنیاد
پر کیا جائے

عبادت عربی لفظ ہے ------جب عبادت کا ترجمہ اردو میں کیا جاتا ہے ----تو ترجمے میں
بھی لفظ عبادت ہی رکھا جاتا ہے

عبادت ، عبد و معبود ایک ہی مادّے ( روٹ ورڈ ) سے جڑے الفاظ ہیں
عبد معنے غلام ----اور معبود وہ جس کی غلامی یا خدمت کی جائے----اور عبادت
وہ خدمت و سعی پیہم جو ایک عبد کے ہاتھوں معبود کے لئے کی جائے

اگر زندگی کا مقصد الله کی نعمت کا حصول ہوجائے ---یا ----جذبہ نعمت باری تعالیٰ کی تکمیل
ہوجائے تو ----انسان کی کل زندگی اور اس کا ایک ایک فعل اور حرکت ----عبادت
میں تبدیل ہوسکتی ہے

قرآن الحکیم ایسی نماز کو جس کی بنیاد تقویٰ نہ ہو ریاکاری / دکھاوا قرار دیتا ہے

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
-------------------------
أَرَءَيۡتَ ٱلَّذِى يُكَذِّبُ بِٱلدِّينِ
اے نبیؐ ) کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے)
 فَذَٲلِكَ ٱلَّذِى يَدُعُّ ٱلۡيَتِيمَ
وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
 وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلۡمِسۡكِينِ
اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ( باہم ) ترغیب نہیں دیتا
 فَوَيۡلٌ۬ لِّلۡمُصَلِّينَ
پھر تو تباہی ہے ان نمازپڑھنے والوں کے لئے
 ٱلَّذِينَ هُمۡ عَن صَلَاتِہِمۡ سَاهُونَ
جو اپنی نماز (کی روح ) سے غافل ہیں
 ٱلَّذِينَ هُمۡ يُرَآءُونَ
جو (اپنی نمازوں سے اپنے دیندار ہونے کا ) دکھلاوا کرتے ہیں
 وَيَمۡنَعُونَ ٱلۡمَاعُونَ
اور برتنے کی معمولی چیزوں ( کے لین دین ) سے منع کرتے ہیں
( سوره الماعون )

یعنی الله تعالیٰ نے اپنے دین میں جو حق
ایک یتیم کا رکھا ہے اس کو ادا کرنا تو دور کی بات اس پر ظلم ڈھانا
یا اس کے یتیم ہونے پر اس کو بد قسمت قرار دیتے ہوئے اس کو اپنے درمیان اٹھنے بیٹھنے سے منع کرنا---اور مسکین کے کھانے کی ایک دوسرے کو باہم ترغیب نہ دینا پھر اس پر پابندی کے ساتھ نماز ادا کرکے خود کو دیندار سمجھنا دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دین کو اپنا شخصی و انفرادی امن و سلامتی سمجھتا ہے اور اس کی نو عیت باہم سلامتی کا انکار کرتا ہے جب وہ پانچوں وقت نماز کے لئے اگر وہ مسجد جاتا ہے تو محض اپنے ذاتی و محدود انفرادی امن کے لئے دعائیں مانگنے جاتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پانچوں نمازوں کا پابند اور تہجد گذار بنتا ہے تاکہ وہ الله سے اپنی شخصی و انفرادی سلامتی طلب کرے ---لیکن وہ اس بات کو سمجھ نہیں پاتا کہ اس کے شخصی و انفرادی امن کو الله نے اپنی نعمت باہم سلامتی میں پوشیدہ کر رکھا ہے
لہٰذا جب تک ایک انسان اپنے انفرادی امن پر اجتماعی و باہم سلامتی کو ترجیح نہیں دیتا اور
اس کے حصول کے لئے باہم اجتماعی کوشش عمل صالح نہیں کرتا تو پھر وہ اپنے انفرادی امن سے بھی محروم رہتا ہے ---کیونکہ الله کی نعمت باہم سلامتی یا اس کے دین
اسلام ہی سے کسی بھی شئے یا فرد یا قوم ملک نسل کی انفرادی سلامتی وابستہ ہے
اور اللہ کے اسی دین باہم سلامتی ہی کی رو سے ایک انسان دوسرے انسان کا حق معلوم کرتا ہے ---ایک نسل و ملک اور قوم دوسری نسل ملک و قوم کے ساتھ بھلائی کرے
کیونکہ الله تعالیٰ اپنے دین اسلام ہی کی رو سے ہر قوم نسل ملک اور جہاں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ---کیونکہ الله کسی ایک محدود عالم یا ملک و قوم کا رب ہی نہیں بلکہ  سارے عالمین کا رب ہے ---لہٰذا اس کا دین یعنی امن کسی ایک محدود عالم یا ملک پر مبنی امن نہیں بلکہ تمام عالمین کی باہم سلامتی ہے ----اور اس کی نماز اس کے دین باہم سلامتی کی تعلیم اور اس کے حصول کی حکمت پیش کرتی ہے
اور انفس و آفاق میں موجود اس کی نشانیاں پیش کرتی ہے تاکہ ہر نماز پڑھنے والا ( مصلی ) ان نشانیوں کی مدد سے اس کی نعمت کے حق ہونے کی تصدیق کرلے اور اس کا علم یقین اپنے نفس و قلب سے بیدار کرلے --اور پھر پورے علم یقین کے ساتھ اس کے حصول کی باہم کوشش (عمل صالح )کرے --کیونکہ یہی باہم کوشش ( عمل صالح ) ہی اس کے دین کی خدمت ہے اور اس کے دین کی خدمت ہی اس کی خالص بندگی یعنی عبادت ہے 
اور نماز روزہ زکات و حج اس عبادت کے ستون ہیں ---اس طرح الله کے نزدیک ان ستونوں کے بغیر بھی انسان کا عمل صالح بھی مقبول نہیں
اس کی مثال ایسی ہے جیسے ستونوں کے بغیر ایک عمارت کا کھڑا ہونا ممکن نہیں -----اسی طرح نماز روزہ زکات و حج کے بغیر بھی کسی کے لئے الله کی نعمت باہم سلامتی کی خدمت جاری رکھنا ممکن نہیں---- اور ان ستونوں کے بغیر اس کا کوئی وزن نہیں 
لہٰذا شیطان ( حاسد نعمت ) چاہتا ہے کہ ہم میں سے جو نمازی ہے وہ الله کی بندگی ( یعنی عبادت ) کے مفہوم سے آگاہ ہی ہو پائے اور جو الله کی خالص بندگی یعنی عبادت کے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہے وہ ہرگز نماز سے استعانت حاصل نہ کر پاسکے  یعنی نماز سے اس عبادت کا طریق ---صراط مستقیم معلوم نہ کر پائے
لہٰذا ایک مقام پر اللہ تعالیٰ دو اہم اوصاف اپنی نعمت کے خادموں میں پیدا کرنا چاہتا ہے
ایک صبر ----دوسرا نماز سے اس کی نعمت کی تعلیم ----اس کا قانون ----صراط مستقیم سے بتدریج آگاہی  

کیونکہ صبر انسان کے نفس و قلب میں موجود جذبہ نعمت باہم سلامتی کی وہ لچک ہے جس سے ایک مومن مصیبتوں مشکلات کا مقابلہ کرسکتا ہے----یعنی جب اس پر کوئی مصیبت مشکل آتی ہے تو وہ الله پر بھروسہ اور آخرت کے کل امن کے تصور و یقین کی وجہ سے دراز ہوجاتا ہے اور جیسے ہی اس پر سے مصیبت کا دور ختم ہوجاتا ہے تو اس سے پہلے پہلے وہ دل شکستہ یا ٹوٹ کر خود کشی کرنے کے بجائے اپنی پہلی حالت امن پر واپس آجاتا ہے -----جس طرح سے ایک ا سپرنگ یا ا سٹرنگ اپنی لچک ( الاسٹک نیچر ) کی وجہ سے اس پر عاید قوت کی وجہ دراز ( ایلانگیٹ ) ہوجاتا ہے اور جیسے ہی اس پر سے قوت ہٹالی جاتی ہے تو وہ اپنی پہلی حالت پر واپس آجاتا ہے  
اور نماز مومن کے جذبہ نعمت (تقویٰ ) کی لچک کو باقی و بر قرار رکھنے میں معاون و مدد گار بنتی ہے----اس طرح نماز مومن کو سخت نا مناسب حالات میں بھی یقین کی روشنی مہیا کرتی ہے کہ تو حصول نعمت کی راہ میں ناکام ہرگز نہیں بلکہ منزل کے بلکل قریب تر ہوتا جا رہا ہے --اس طرح ہر نماز اس کو اپنے رب سے پر امید و پر عزم بنادیتی ہے جو کہ نفس و قلب کی لچک صبر کے لئے لازم ہے 
اس کے بر خلاف ایک مومن غیر مومن کی طرح مصیبت پر خود کشی کرنے پر مائل نہیں ہوجاتا ----بلکہ وہ مصیبت میں اپنی صحت و تندرستی کے متعلق اور بھی ہوشمند بن جاتا ہے
اس سے ثابت یہ ہوا کہ جذبہ نعمت (تقویٰ ) نفس و قلب کی با القوه صلاحیت ہے ---اور ایمان و عمل صالح اس کی با الفعل صورت و شکل کا نام ہے
یعنی جس کسی نفس و قلب میں تقویٰ ( جذبہ نعمت باہم سلامتی ) بیدار ہے جب ہم اس کی زندگی کا جائزہ لیں تو اس کی پوری زندگی عبادت یعنی عمل پیہم صالح ہوتی ہے -----اور جس کے نفس و قلب میں تقویٰ کی آگ و روشنی بیدار نہیں ہے ہم دیکھیں گے کہ اس کی پوری زندگی ادنیٰ خواہشات کی تکمیل یا الله کی نعمت باہم سلامتی کے خلاف ناجائز جذبہ پرستیوں کی تکمیل  یعنی عملن غیر صالح ہوگی   

اس طرح خلاصہ کلام یہ کہ انسان اگر انفس و آفاق میں موجود الله کے دین کے حق یعنی باہم سلامتی کی نشانیوں کی باضابطہ تعلیم حاصل کرے گا---- تب ہی وہ اس کو ایک محکم نظام امن اور تمام جہانوں ملکوں قوموں نسلوں کے حق میں اس کی عطا کردہ پناہ گاہ ہونے کا -----اور اس کی پناہ گاہ کو اس کی طرف سے عطا کردہ خاص نعمت باہم سلامتی ہونے کا علم یقین اور اس کا جذبہ اپنے قلب و نفس سے بیدار کر پائے گا --- اور اس علم یقین و جذبہ (تقویٰ ) کی بیداری کے بعد ہی وہ الله کی نعمت باہم سلامتی کی خدمت یعنی عمل صالح  یا الله کی بندگی پر آمادہ ہوپائے گا----اور اس راہ میں پڑی تمام مشکلات کا مقابلہ کر پائے گا ----اور با الآخر اپنے رب سے ملاقات کے قابل یعنی اپنی منزل مطلق سلامتی (السّلام ) پر پہنچ پائے گا 

Comments

Popular posts from this blog

نبیؐ بھی اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ ---------------------- قُل لَّآ أَمۡلِكُ لِنَفۡسِى نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّا اے نبیؐ  ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ‌ۚ اللہ جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے وَلَوۡ كُنتُ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ لَٱسۡتَڪۡثَرۡتُ مِنَ ٱلۡخَيۡرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ‌ۚ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا إِنۡ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ۬ وَبَشِيرٌ۬ میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سُنانے والا ہوں لِّقَوۡمٍ۬ يُؤۡمِنُونَ اُن لوگوں کےلیے جو بات مانیں سُوۡرَةُ الاٴعرَاف -١٨٨